West versus East

 

مغربی ممالک میں ہائی سکول سے جب طالبعلم فارغ ہوتا ہے تو وہ گریڈ 12 پاس کرچکا ہوتا ہے جو پاکستان میں انٹرمیڈیٹ کے برابر ہوتا ہے۔ ہائی سکول سے پاس ہونے والے سٹوڈنٹس کی عمر عام طور پر 18 سال کے قریب ہوتی ہے اور سکول سے فارغ ہوتے ہی ان کیلئے پارٹ ٹائم جاب کرنا تقریباً لازمی ہوتا ہے چاھے وہ صدر یا وزیراعظم کی اولاد ہی کیوں نہ ہوں۔

ہفتے میں تقریباً 20 گھنٹے کی جاب کرنے والے یہ سٹوڈنٹ عام طور پر ریٹیل سٹورز میں کیشئرز، کاؤنٹر سٹاف یا سیلز سپورٹ کی جاب کرتے ہیں۔ یہ وہی جاب ہے جو ہمارے ہاں پاکستان میں بڑے بڑے ڈیپارٹمنٹل سٹورز پر 25، 30 اور 35 سال سے زائد عمر کے لوگ مستقل بنیادوں پر کرتے ہیں۔

چھٹیاں ختم ہوتے ہی سٹوڈنٹس اپنے کالج میں داخلہ لے کر پڑھائی شروع کرلیتے ہیں اور ایک آدھ سال کے بعد دوبارہ پارٹ ٹائم انٹرن شپ شروع کرلیتے ہیں۔ اس دفعہ ان کی انٹرن شپ عام طور پر دفاتر میں ہوتی ہے جہاں وہ اپنے اپنے شعبے سے متعلقہ دفتری امور سیکھتے ہیں۔ انٹرن شپ کی انہیں تنخواہ بھی ملتی ہے اور یوں وہ 18 سے 20 سال کی عمر میں اپنے تعلیم کے اخراجات اٹھانے کے قابل ہوجاتے ہیں اور انہیں کام کا تجربہ اور عادت بھی ہوجاتی ہے۔

چار سال بعد گریجوایشن مکمل کرنے کے بعد ایک طرف تو ان کے پاس پروفیشنل ڈگری آچکی ہوتی ہے، دوسری طرف ان کے پاس جاب کا تجربہ ہوچکا ہوتا ہے۔ عام طور پر جہاں انٹرن شپ کرتے ہیں، اگر ان کا کام پسند آجائے تو وہ کمپنی انہیں مستقل جاب بھی آفر کردیتی ہے۔

یہ ہے وہ ماڈل جس پر مغربی ممالک اپنے ہیومن ریسورس کو ڈویلپ کرتے ہیں۔ یہ لوگ فیلڈ میں جاتے ہیں تو اپنی قابلیت اور کام کرنے کے جذبے کی مدد سے اپنا بہترین اس فیلڈ کو دیتے ہیں جس سے مجموعی طور پر ان اداروں کو فائدہ ہوتا ہے، اکانومک گروتھ ہوتی ہے جس سے مزید نوکریاں پیدا ہوتی ہیں جنہیں آئیندہ آنے والے سٹوڈنٹس پُر کرتے ہیں۔

مغربی ممالک کی ترقی کا دارومدار نہ تو ان کی کرنسی پر ہے اور نہ ہی ان کے قدرتی ذرائع پر۔ اگر ایسی بات ہوتی تو خلیجی ممالک اپنے تیل کی بدولت دنیا کے سب سے ترقی یافتہ ممالک ہوتے اور مغربی ممالک ان کے نیچے لگے ہوتے۔

مغربی ممالک کی ترقی کا سارا دارومدار ان کے ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ پر ہے اور یہی وہ ماڈل ہے جس کی بدولت وہ مسلمان ممالک سے کئی دہائیاں آگے نکل چکے۔

پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ پر اگر کوئی کام ہوا تو وہ مشرف دور میں اس کے منسٹر عطا الرحمان نے کیا۔ عطا الرحمان نے ایک طرف ہائیرایجوکیشن کمیشن کو نئے سرے سے فعال کرتے ہوئے یونیورسٹیز اور کالجز کو ریگولیٹ اور ان کی پرفارمنس مانیٹر کرنا شروع کیا، دوسری طرف ساری دنیا کی یونیورسٹیز سے پاکستانی طالبعلموں کیلئے سکالرشپس مانگ کر ہزاروں کی تعداد میں پاکستانیوں کو بیرون ممالک پی ایچ ڈی کرنے کیلئے بھجوایا۔

عطاالرحمان کے بعد زرداری آیا اور اس نے کبھی میرہزار خان بجارانی تو کبھی سردار آصف احمد علی کو تعلیم کے شعبے تھما کر ان کا بیڑا غرق کیا۔ نوازشریف نے تو کسی کو فُل وزارت بھی نہ دی، میاں بلیغ الرحمان کو تعلیم کی چھوٹی منسٹری پروٹوکول کے مزے لوٹنے کیلئے دے دی۔

زرداری اور نوازشریف کو پاکستان میں ہیومن ریسورس ڈویلپ کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو عوام میں شعور آنے کا خطرہ ہے، شعور آگیا تو پھر لوگ سوال بھی اٹھائیں گے کہ تم لوگ پاکستان میں کوئی ٹیکس دیئے بغیر بیرون ممالک میں اربوں ڈالرز کے اثاثوں کے مالک کیسے بن بیٹھے؟ شعور آیا تو لوگ ان کے بدمعاشوں کو ووٹ ڈالنا بھی بند کردیں گے جس سے ان کے دوبارہ برسراقتدار میں آنے کے امکانات بھی ختم ہوجائیں گے۔

جی نہیں۔ نوازشریف اور زرداری کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، ان دونوں نے پاکستان کا ہیومن ریسورس ڈویلپ کرنے کی نہ تو کبھی کوئی کوشش کی اور نہ ہی ان کا ایسا کوئی ارادہ ہے۔ نوازشریف اور زرداری کا مفاد اسی میں ہے کہ عوام کی اکثریت غیر تربیت یافتہ مزدور، پلمبر، الیکٹریشنز، رنگ ساز، ریڑھی بان، رکشہ چلانے والے اور دکانداروں پر ہی مشتمل رہے۔ یہ لوگ کبھی نہیں چاہیں گے کہ اچھے تعلیمی نظام سے انجینئرز، ڈاکٹرز، بزنس ایڈمنسٹریٹرز، اکاؤنٹنٹس، اکانومسٹس، سوشیالوجسٹس، جیالوجسٹس، نیوکلئیر سائنٹسٹس اور بیالوجسٹس نکلیں اور ملک کو آگے لے کر جائیں۔

یہ ایک ایسا شیطانی دائرہ ہے کہ جس میں انپڑھ لوگ نوازشریف اور زرداری جیسی غلیظ قیادت منتخب کرتے رہیں گے، پھر یہ قیادت لوگوں کو انپڑھ اور جاہل بنائے رکھے گی اور وہ انہیں اور ان کی اولادوں کو منتخب کرتے رہیں گے۔

کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی زندگی میں بھی وہی آسائشیں اور آسانیاں آئیں جو مغربی ممالک کے عوام انجوائے کرتے ہیں؟ اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے تو ایک دفعہ نوازشریف اور زرداری کی بجائے کسی بہتر قیادت کو ٹائم مکمل کرنے دیں۔ اگر وہ ڈیلیور نہ کرسکا تو بے شک نوازشریف اور زرداری کی اولادوں کو دوبارہ لے آئیں، یہ شیطان کی نسل ہیں، کون سا دنیا چھوڑ جائیں گے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *