Hazrat Ameer Hamza
*سیدالشہداء حضرت سیدنا امیرحمزہ رضی اللہ عنہ*
اسمِ گرامی: سیدنا امیرِحمزہ۔ *
کنیت*: ابوعمارہ۔ *
لقب* : *اسداللہ واسدرسول اللہﷺ*
تاریخِ ولادت:
حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی عمر نبی اکرم ﷺسے دو سال اور ایک قول کےمطابق چار سال زیادہ تھی۔
قبولِ اسلام:
بعثت کے دوسرے سال مشرف بااسلام ہوئے۔اسلام لانے کے دن انہوں نے سنا کہ ابو جہل،نبیِ مکرمﷺکی شان میں نازیبا کلمات کہہ رہا ہے، تو آپ نے حرم مکہ میں اس کے سر پر اس زور سے کمان ماری کہ اس کا سر پھٹ گیا،اورحضرت حمزہ نے نبیِ مکرم ﷺ سےگزارش کی…بھتیجے! اپنے دین کا کھل کر پرچار کیجئے !اللہ تعالیٰ کی قسم ! مجھے دنیا بھر کی دولت بھی دے دی جائے تو میں اپنی قوم کے دین پر رہنا پسند نہیں کروں گا، ان کے اسلام لانے سے رسول اللہﷺ کو تقویت حاصل ہوئی اور مشرکین آپ کی ایذا رسانی سے کسی حد تک رک گئے، بعد ازاں ہجرت کرکے مدینہ منورہ چلے گئے۔
*سیرت وخصائص*:
سید الشہداء حضرت سیدنا امیرحمزہ رضی اللہ عنہ بہادر،سخی،نرم مزاج والے،خوش اخلاق، قریش کے دلآور جوان اور غیرت مندی میں انتہائی بلند مقام کے مالک تھے۔
رسول اللہﷺنے جو پہلا جھنڈا تیار کیا وہ سید الشہداء ہی کے لیے تھا، جب 2ھ/623ء میں حضور سید عالمﷺ نے انہیں قوم جھینہ کے علاقے سیف البحر کی
طرف (ایک دستے کے ہمراہ ) بھیجا۔ ابن ہشام نے سیدنا حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کے یہ اشعار نقل کیے ہیں ۔ترجمہ:”رسول اللہﷺکے حکم پر میں پہلا تلوار
چلانے والا تھاجس کے سر پر جھنڈا تھا، یہ جھنڈا مجھ سے پہلے ظاہر نہ ہوا تھا۔”حضرت سید الشہداء جنگ احد کے دن خاکستری اونٹ اور پھاڑنے والے شیر
دکھائے دیتے تھے۔ انہوں نے اپنی تلوار سے مشرکین کو بری طرح خوف زدہ کردیا، کوئی ان کے سامنے ٹھہرتا ہی نہ تھا۔ غزوہ احد میں آپ نے31 مشرکوں
کو جہنم رسید کیا۔ پھر آپ کا پاؤں پھسلا تو آپ تیر اندازوں کی پہاڑی کے پاس واقع وادی میں پشت کے بل گرگئے، زرہ آپ کے پیٹ سے کھل گئی،
جبیر بن مطعم کے غلام وحشی بن حرب نے کچھ فاصلے سے خنجر پھینکااور اللہ تعالیٰ نے اس کے ہاتھوں آپ کو مرتبہ شہادت سے سرفراز فرمایا۔
سَر زمینِ عرب غزوہ اُحد کو رُونما ہوئے 46 سال کا عرصہ گزر چُکا تھا کہ حضرتِ سیّدنا امیر معاویہ رضی اللّٰه تعالیٰ عنه کے دورِ حکومت میں
میدانِ اُحُد کے درمیان سے ایک نہر کی کھدائی کے دوران شہدائے اُحد کی بعض قبریں کھل گئیں۔ اَہلِ مدینہ اور دوسرے لوگوں نے دیکھا کہ
شہدائے کرام کے #کفن_سلامت اور بدن تَرو تازہ ہیں اور انہوں نے اپنے ہاتھ زخموں پر رکھے ہوئے ہیں۔ جب زخم سے ہاتھ اٹھایا جاتا تو تازہ
خون نکل کر بہنے لگتا۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ پُرسُکون نیند سو رہے ہیں۔ (سبل الہدی، 252/4۔ کتاب المغازی للواقدی، 267/1۔ دلائل النبوۃ للبیہقی، 291/3)
اس دوران اتفاق سے ایک شہید کے پاؤں میں بیلچہ لگ گیا جس کی وجہ سے زخم سے تازہ خون بہہ نکلا۔ (طبقات ابن سعد، 7/3) ?
یہ شہید کوئی اور نہیں رسولُ اللّٰه صلی اللّٰهُ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے معزر چچا اور رضائی بھائی خیرُ الشُّہَداء، سیّد الشُّہَداء #حضرتِ_سیّدنا_امیر_حمزہ بن عبد المطلب رضیَ اللّٰهُ تعالیٰ عنه تھے۔
(طبقات ابن سعد، 87/1۔ الاستیعاب، 425/1) ?#پ
یدائش_وکنیت:-
راجح قول کے مطابق آپ رضی اللّٰهُ تعالیٰ عنه کی ولادت نبی اکرم صلی اللّٰهُ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی اس دنیا میں جلوہ گری سے دو سال پہلے ہوئی۔ (اسد الغابہ، 66/2) آپ رضی اللّٰهُ تعالیٰ عنه کی کنیت ابو عّمارہ ہے۔ (معجم کبیر، 173/3) ?#
حلیہ_و_مشاغل:-
آپ رضیَ اللّٰهُ تعالیٰ عنه بہت حیسن و جمیل تھے، خوبصورت پیشانی، درمیانہ قد، چَھرِیرا (وبلا پتلا) بدن، گول بازو جبکہ کلائیاں چوڑی تھیں۔ شعر و شاعری سے شغف تھا۔ شمشیر زنی، تیر اندازی اور پہلوانی کا بچپن سے شوق تھا۔ سیرو سیاحت کرنا، شکار کرنا مَن پسند مشغلہ تھا۔ (تزکرہ سیدنا امیر حمزہ، ص17 ملخصاً) ?#
قبول_اسلام:-
ایک مرتبہ شکار سے لوٹ کر گھر پہنچے تو اطلاع ملی کہ ابوجہل نے آپ کے بھتیجے محمد (صلی اللّٰهُ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ناروا اور گستاخانہ سلوک کیا ہے۔ یہ سنتے ہی جوشِ غَضَب میں آپے سے باہر ہو گئے پھر کمان ہاتھ میں پکڑے حرمِ کعبہ میں جا پہنچے اور ابوجہل کے سر پر اور اس زور سے ضرب لگائی کہ اس کا سر پھٹ گیا اور خون نکلنے لگا، پھر فرمایا: میرا دین وہی ہے جو میرے بھتیجے کا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللّٰه کے رسول ہیں، اگر تم سچے ہو تو مجھے مسلمان ہونے سے روک کر دکھاؤ۔ (معجمِ کبیر، 140/3، حدیث:2926) گھر لوٹے تو شیطان نے وسوسہ ڑالا کہ تمہارا شمار قریش کے سرداروں میں ہوتا ہے کیا تم اپنا دین بدل دو گے؟ آپ رضیَ اللّٰهُ تعالیٰ عنه کی پوری رات بے چینی اور اضطراب میں گزری، صبح ہوتے ہی بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اور اس پریشانی کا حل چاہا تو رحمتِ عالم صلی اللّٰهُ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کی طرف توجہ فرمائی اور اسلام کی حقانیت اور صداقت ارشاد فرمائی، کچھ ہی دیر بعد آپ رضیَ اللّٰهُ تعالیٰ عنه کے دل کی دنیا جگمگ جگمگ کرنے لگی اور زبان پر یہ کلمات جاری ہو گئے، میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ سچے ہیں۔ (مستدرک، 196/4، حدیث:4930) ?#
بارگاہِ_رسالت_میں_مقام_و_مرتبہ:-
پیارے آقا محمدِ مصطفےٰ صلی اللّٰهُ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم آپ رضی اللّٰهُ تعالیٰ عنه سے بے حد محبّت کیا کرتے اور فرماتے تھے کہ میرے چچاؤں میں سب سے بہتر حضرتِ حمزہ (رضیَ اللّٰهُ تعالیٰ عنه) ہیں۔ (معرفتہ الصحابۃ، 21/2، رقم:1839) ?#
حکایت:-
محبّت کے اظہار کے انداز جداگانہ ہوتے ہیں ایک نرانہ انداز ملاحظہ کیجئے: ایک جاں نثار صحابی رضیَ اللّٰهُ تعالیٰ عنه نے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہو کر عرض کی: میرے ہاں لڑکے کی ولادت ہوئی ہے میں اس کا کیا نام رکھوں؟ تو رحمتِ عالم صلی اللّٰهُ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لوگوں میں مجھے سب سے زیادہ اپنے چچا حمزہ سے محبّت ہے لہٰذا انہیں کے نام پر اپنے بچے کا نام رکھو۔ (معرفتہ الصحابۃ، 21/2، رقم:1839) ?#
زیارتِ_جبریل_کی_خواہش:-
ایک مرتبہ آپ رضیَ اللّٰهُ تعالیٰ عنه نے بارگاہِ رسالت میں درخواست کی کہ میں حضرتِ جبریل علیهِ السَّلام کو اصلی صورت میں دیکھنا چاہتا ہوں، ارشاد ہوا: آپ دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتے، آپ نے اصرار کیا تو نبی کریم صلی اللّٰهُ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: زمین پر بیٹھ جائیے۔ کچھ دیر بعد حضرت جبریل امین علیهِ السَّلام حرمِ کعبہ میں نصب شدہ ایک لکڑی پر اترے تو سرورِ عالم صلی اللّٰهُ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: چچا جان نگاہ اٹھائیے اور دیکھئے، آپ نے جونہی اپنی نگاہ اٹھائی تو دیکھا کہ حضرتِ جبریل علیهِ السَّلام کے دونوں پاؤں سبز زَبَرجَر کے ہیں، بس! اتنا ہی دیکھ پائے اور تاب نہ لا کر بے ہوش ہو گئے۔ (الطبقات الکبریٰ، 8/3) ?#کارنامے:- رَمَضانُ المبارک 1 ہجری میں 30 سواروں کی قیادت کرتے ہوئے اسلامی لشکر کا سب سے پہلا علَم آپ رضیَ اللّٰهُ تعالیٰ عنه نے سنبھالا۔ اگرچہ لڑائی کی نوبت نہ آئی لیکن تاریخ میں اسے “سرِیّہ حمزہ” کے نام سے جانا جاتا ہے۔ (طبقات اب سعد، 6/3) 2 ہجری میں حق و باطل کا پہلا معرکہ میدانِ بدر میں پیش آیا تو آپ رضیَ اللّٰهُ تعالیٰ عنه بڑے جوش و جذبے کے ساتھ شریک ہوئے اور مشرکین کے کئی سورماؤں کو ٹھکانے لگایا۔ آپ رضیَ اللّٰهُ تعالیٰ عنه اپنے سَر پر شتر مرغ کی کلغی سجائے ہوئے تھے جبکہ دونوں ہاتھوں میں تلواریں تھامے اسلام کے دشمنوں کو جہنَّم واصِل کرتے اور فرماتے جاتے کہ میں اللّٰه اور اس کے رسول کا شیر ہوں۔ (معجمِ کبیر، 150،149/3، رقم:2957-2953) ?#
شہادت:-
#15 _شّوالُ_المکرم 3 ہجری غزوہ اُحد میں آپ رضیَ اللّٰهُ تعالیٰ عنه نہایت بے جگری سے لڑے اور 31 کفّار کو جہنّم واصِل کر کے شہادت کا تاج اپنے سر پر سجا کر اس دنیا سے رُخْصت ہو گئے۔ (معرفتہ الصحابۃ، 17/2)
دشمنوں نے نہایت بے دردی کے ساتھ آپ رضیَ اللّٰهُ تعالیٰ عنه کے ناک اور کان جسم سے جُدا کر کے پیٹ مبارک اور سینئہ اقدس چاک کر دیا تھا اس جگر خراش اور دل آزار منظر کو دیکھ کر
رسولُ اللّٰه صلی اللّٰهُ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا دل بے اختیار بھر آیا اور زبانِ رسالت پر یہ کلمات جاری ہو گئے: آپ پر اللّٰه تعالیٰ کی رحمت ہو
کہ آپ قرابت، داروں کا سب سے زیادہ خیال رکھتے اور نیک کاموں میں پیش پیش رہتے تھے۔
(دارِ قطنی، 207/5، حدیث:4209، معجمِ کبیر، 143/3، حدیث:2937) ?#
پریشانی_دور_کرنے_والے:-
سیرت اور تاریخ کی کتابیں اس پر گواہ ہیں کہ بَوقتِ جنازہ رسول اللّٰه صلی اللّٰهُ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے
آپ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ?یَا حَمْزَۃُ یَاعَمَّ رَسُوْلِ اللّٰهِ وَاَسَدَ رَسُوْلِهٖ یَا حَمْزَۃُ یَا فَاعِلَ الْخَیْرَاتِ، یَا حَمْزَۃُ یَا کَاشِفَ الْکَرَبَاتِ، یَا حَمْزَۃُ یَا ذَابًّا عَنْ وَجْهِ رَسُوْلِ اللّٰهِ صلَّی اللّٰهُ تعالیٰ علیِه واٰله وسَلَّم #
یعنی اے حمزہ! اے رسول اللّٰه! کے چچا، اللّٰه اور اس کے رسول کے شیر! اے حمزہ! اے بھائیوں میں پیش پیش رہنے والے! اے حمزہ! اے رنج و ملال اور پریشانیوں کو دور کرنے والے!
اے حمزہ! رسولُ اللّٰه کے چہرے سے روشمنوں کو دور بھگانے والے! (شرح الزر قانی علی المواہب، 470/4) ?#
نمازِ_جنازہ_و_مدفن:- شہدائے احد میں سب سے پہلے آپ رضیَ اللّٰه تعالیٰ عنه کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی پھر ایک ایک شہید کے ساتھ آپ کی بھی نماز پڑھی گئی
جبکہ ایک روایت کے مطابق دس دس شہیدوں کی نماز ایک ساتھ پڑھی جاتی اور ان میں آپ بھی شامل ہوتے یوں اس فضیلت میں آپ رضیَ اللّٰهُ تعالیٰ عنه منفرد ہیں
اور کوئی آپ کا شریک نہیں ہے۔ (الطبقات اکبری 7/3۔ سنن کبریٰ للبیہقی، 18/4، حدیث:6804)
جبلِ اُحد کے دامَن میں آپ رضیَ اللّٰهُ تعالیٰ عنه کا مزار #دعاؤں_کی_قبولیّت کا مقام ہے۔