Chuttian krdou Sahib (چھٹیاں کر دو صاحب)
گزشتہ کئی دنوں سے ایک ہی تکرار زیر بحث ہے کہ رمضان کے مبارک مہینے میں گرمی سے تڑپتی اور بلکتی عوام کو چھٹیوں کی ٹھنڈی بارش میں بھیگنے کا موقع ملے گا کہ نہیں؟
اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اساتذہ اور طلبہ جب اپنا نیم مدہوش سا وجود اور نوزائیدہ روزہ اٹھاۓ چلچلاتی دھوپ میں تشریف لاتے ہیں تو بس لب پر ایک ہی دعا تمنا بن کر آتی ہے کہ
چھٹیاں کر دو صاحب۔
مزاح سے ہٹ کر اگر ہم ایک نظر واقعتاً اپنے گردونواح پر ڈالیں تو یہ ہمیں یہ ایک اولین ترجیح لگے گی کہ چھٹیاں ہو جانی چاہئیں۔
رمضان کے مہینے میں روزہ رکھ کر گرمی میں مشقت بھرے کام کا تصور کرنا ہی آسان نہیں اور عوام اس وقت سے گزر رہی ہے۔ مگر اےسی کی ٹھنڈک سے بھر پور کمروں کی نرم و دبیز نشستوں پر بیٹھے محکمہ تعلیم کے اعلیٰ افسران اس بات سے لاعلم و نابلد ہیں کہ کیسے عوام ان دنوں گزارا کر رہی ہے ۔
ذاتی رائے کی بات کی جاۓ تو ازخود ایک طالب علم ہونے کے ناطے میں اس درد سے باخوبی آشنا ہوں کہ میں مئی کے گرم دنوں میں یونیورسٹی جانا کیسا عذاب ہے۔
روایت کو برقرار رکھتے ہوئے باقی مظلوم عوام کی طرح میں بھی بس عہدیداران اور زمہ داران سے بس اپیل ہی کر سکتی ہوں اور وہ اپیل سواۓ اس کے اور کچھ نہیں ہو سکتی کہ
چھٹیاں کر دو صاحب